نگار ولا سے ملحقہ باغیچہ۔ ۔ ۔ شام کا وقت۔ فوارے کا پانی بند ہے۔ جیسے وہ ابل ابل کر عاجز آ چکا ہے۔ پس منظر میں خاکستری پہاڑیاں دھندلکوں میں اپنی سنگینیاں جیسے چھپا رہی ہیں۔ فرش پر سبزہ روندا ہوا سا معلوم ہوتا ہے۔ دائیں طرف، فوارے سے دور ہٹ کر گھنی جھاڑیاں جن کے عقب میں امجد، اپاہجوں والی کرسی میں بیٹھا ہے۔ پشت پر اصغری کرسی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہے۔ ۔ ۔ وہ اسے چلانے لگتی ہے۔ ) امجد :نہیں اصغری۔ ۔ ۔ کچھ دیر ٹھہرو۔ اصغری : (ٹھیر جاتی ہے) لیکن امجد میاں۔ ۔ ۔ امجد :میں آج اپنی زندگی کا آخری زخم کھانا چاہتا ہوں۔ اصغری :یہ زخم کھانا اگر آپ ضروری سمجھتے ہیں تو اپنے تصور ہی میں کھا سکتے ہیں۔ ۔ ۔ لیکن۔ ۔ ۔ یہ زخم تو آپ کے لگ چکا ہے۔ ۔ ۔ اسے دوبارہ کیوں کھانا چاہتے ہیں آپ؟ امجد : (مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے) میری حالت میں جو آدمی ہو اس کے بدھو پنے کی کوئی حد نہیں رہتی۔ ۔ ۔ اپنے زخموں کے ٹانکے کھول کھول کر دیکھتا ہے۔ انگوروں کی زبانی ٹیسوں کی داستانیں سنتا ہے اور خود کو بہت بڑا شہید سمجھتا ہے۔ ۔ ۔ (ہنستا ہے) اصغری تمہاری کبھی کوئی چیز ٹوٹی نہیں، اس لئے تم لوگوں کا درد ناک حال نہیں جانتی ہو جو عجز کی انتہا کو پہنچ کر شکست و ریخت میں بلند بام عمارتیں بناتے ہیں۔ اصغری : (مسکراتی ہے)میں تو ان حدوں سے بھی آگے نکل گئی ہوں امجد میاں۔ ۔ ۔ بڑی اونچی اونچی عمارتیں بنا کر خود اپنے ہاتھوں سے ڈھا چکی ہوں۔ ۔ ۔ ایسا کرتے کرتے تو میرے دل میں بھی گٹے پڑ چکے ہیں۔ امجد : (کانپ جاتا ہے) اصغری۔ ۔ ۔ تم بڑی خوفناک ہو۔ اصغری : (ہنستی ہے) ہر اجاڑ خوفناک ہوتی ہے۔ ۔ ۔ حالانکہ بیچاری کیا خوفناک ہو سکتی ہے۔ اسے اپنے ماتم سے اتنی فرصت ہی کہاں ملتی ہے جو دوسروں کو ڈرائے۔ ۔ ۔ وہ تو خود دبکی ہوئی، سہمی ہوئی ہوتی ہے۔ امجد :تمہاری زندگی بھی کسی حادثے سے دوچار ہوئی؟ اصغری :جی نہیں۔ ۔ ۔ اس جی کی زندگی کسی حادثے سے کیا دو چار ہو گی جو کہ خود ایک حادثہ ہے۔ امجد :تمہاری باتوں سے جلے ہوئے گوشت کی بو آتی ہے۔ اصغری :اس لئے کہ اب آپ کی سونگھنے کی حس جاگی ہوئی ہے۔ امجد :پہلے سو رہی تھی۔ اصغری :جی ہاں۔ ۔ ۔ بہت گہری نیند۔ امجد :اسے جگایا کس نے ہے ؟ اصغری :اس گاڑی نے جو پٹری سے اتر گئی۔ امجد : (بڑبڑاتا ہے) اس گاڑی نے۔ ۔ ۔ جو پٹری سے اتر گئی۔ ۔ ۔ (ذرا بلند آواز میں) کیا یہ پھر پٹری سے اترے گی؟ اصغری :جو اللہ میاں کو منظور ہے وہی ہو گا۔ امجد :اللہ میاں کا نام مت لو۔ ۔ ۔ میری اس کی دوستی ختم ہو چکی ہے۔ اصغری :نہیں امجد میاں، اس شخص سے ہم ایسوں کی دوستی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ ٹوٹ ٹوٹ کے آپ جڑتی رہتی ہے۔ امجد :یہ سب بکو اس ہے۔ (دونوں ایک دم چونکتے ہیں۔ قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ ۔ ۔ مجید اور سعیدہ ہانپتے ہوئے نمودار ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ سعیدہ جو بہت تھکی ہوئی ہے، فوارے کی منڈیر پر بیٹھ جاتی ہے۔ مجید کھڑا رہتا ہے۔ ) سعیدہ :آج تومیں بہت تھک گئی ہوں۔ مجید :حالانکہ ہم زیادہ دور نہیں گئے۔ سعیدہ :ہاں ! (وقفہ) مجید :کیا ہی اچھا ہوتا، اگر میں کراچی چلا گیا ہوتا۔ سعیدہ :اچھا ہی ہوتا۔ مجید :میری جان عجیب مشکل میں پھنس گئی ہے۔ ۔ ۔ میں کراچی چلا جاتا۔ ۔ ۔ لیکن سوال ہے کیا میں اس منجدھار میں سے اپنی کشتی کھے کر کنارے لے جاتا؟۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ میں ضرور ناکام رہتا۔ سعیدہ :مجھے معلوم ہے۔ مجید :تمہیں معلوم ہے۔ ۔ ۔ مجھے معلوم ہے۔ ۔ ۔ سوائے بھائی جان کے اور سب کو معلوم ہے اور یہی اس کہانی کا سب سے المناک حصہ ہے۔ سعیدہ :میں نے کئی بار سوچا ہے کہ ان سے کہہ دوں، لیکن (اٹھ کھڑی ہوتی ہے)مجھے ڈر ہے، وہ اس صدمے کی تاب نہ لا سکیں گے۔ مجید :مجھے خود اسی بات کا ڈر ہے۔ ۔ ۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک برس اور زندہ رہیں گے۔ ۔ ۔ غریب سے زندگی کا اتنا مختصر عرصہ چھیننا ظلم ہے۔ (جھاڑیوں کے عقب میں امجد اپنے دانت بھینچ لیتا ہے۔ ۔ ۔ اصغری مضبوطی سے اس کا کندھا پکڑ لیتی ہے۔ ) سعیدہ :ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ جب تک وہ زندہ رہیں، خوش رہیں۔ ان کے احساسات کے نازک آبگینوں کو ہلکی سی ٹھیس بھی نہ لگے۔ ۔ ۔ مجید : اور اگر ہمارا کوئی چھالا رگڑ کھا کے پھوٹ پڑا تو۔ ۔ ۔ سعیدہ : (قریب قریب چیخ کر)تو قیامت آ جائے گی۔ مجید :اسی لئے میں سوچتا ہوں کہ میں چلا جاؤں۔ ۔ ۔ جب تک بھائی جان۔ ۔ ۔ سعیدہ : (ایک دم بات کاٹ کر)ایسا نہ کہو مجید۔ ۔ ۔ اتنے ظالم مت بنو۔ (امجد، اپاہجوں کی کرسی میں لرز جاتا ہے، اصغری اس کا دوسرا کندھا بھی مضبوطی سے پکڑ لیتی ہے۔ ) مجید :محبت بڑی ظالم اور خودغرض ہوتی ہے سعیدہ۔ ۔ ۔ کم بخت دوسروں کی موت پر ناچنے کی خواہش کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتی۔ سعیدہ :ہمیں ایسے خیال اپنے دماغ میں نہیں لانے چاہئیں۔ مجید :ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ لیکن آ جائیں تو کیا کریں۔ سعیدہ :کیا کر سکتے ہیں۔ ۔ ۔ چلو۔ (سعیدہ کوٹھی کی جانب چلتی ہے۔ ۔ ۔ مجید اس کے پیچھے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہے۔ ۔ ۔ جھاڑیوں کے عقب میں اپاہجوں والی کرسی میں امجد کا سر جھکا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے اصغری بت بنی کھڑی ہے) اصغری :چلیں ؟ امجد : (اسی طرح سر جھکائے)نہیں۔ ۔ ۔ ابھی نہیں۔ ۔ ۔ میں سوچ رہا ہوں۔ اصغری :کیا؟ امجد :معلوم نہیں۔ ۔ ۔ شاید سوچ رہا ہوں کہ مجھے اب کیا سوچنا چاہئے۔ اصغری :ایسی سوچ بچار بالکل فضول ہوتی ہے۔ امجد : (سر اٹھا کر) فضول تو ہوتی ہے۔ ۔ ۔ مگر پھر کیا کروں۔ ۔ ۔ (وقفے کے بعد) وہ اتنے ظالم نہیں ہیں جتنی تم ہو۔ ۔ ۔ تم تو مجھے سوچنے سے بھی منع کرتی ہو۔ ۔ ۔ تم بڑی ظالم ہو اصغری! اصغری : (مسکرا کر) محبت بڑی ظالم اور خودغرض ہوتی ہے امجد میاں۔ ۔ ۔ کم بخت اپنی موت پربھی ناچنے سے باز نہیں آتی۔ امجد :میرے سامنے آؤ۔ (اصغری، امجد کے سامنے آتی ہے۔ امجد اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے۔ ۔ ۔ کچھ سوچتا ہے اور بڑبڑاتا ہے۔ ) امجد :یہ کتاب اب تک کہاں پڑی تھی۔ اصغری :کہیں ردی کی ٹوکری میں۔ ۔ ۔ اپنی صحیح جگہ! امجد :چلو۔ ۔ ۔ مجھے لے چلو۔ (اصغری کرسی کھیتی ہے اور کوٹھی کی جانب چلتی ہے۔ ) ۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔